چوہدری نذیر احمد ملتان کے حلقوں میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ وہ ملتان کی ایک مشہور تعلیمی درس گاہ کے نگران تھے۔ انہوں نے 1935ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ایم اے کیا۔وہ ایک استاد کی حیثیت سے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوناچاہتے تھے۔ لیکن ان کے والد محکمہ مال میں گردا ور تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تحصیل دار بنے۔ اس لیے والد کے اصرار پر چوہدری نذیراحمد نے متعلقہ امتحان دیا اور نائب تحصیل دار بن گئے۔
یہ بات مجھے چوہدری صاحب کے پرانے دوست غلام محمد بھٹی مرحوم نے سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ چودھری صاحب ضلع حصار کی تحصیل فتح آباد میں نائب تحصیل دار تھے۔ جب ایک مرتبہ وہاں شدید ترین ژالہ باری ہوئی اور ایک علاقے کی ساری فصلیں تباہ وبرباد ہوگئیں۔ چودھری صاحب محکمہ مال کے ایک افسر کی حیثیت سے ”خرابہ“ لکھنے کے لیے اپنے عملے کیساتھ وہاں دورے پر تشریف لے گئے۔ا نہوں نے دیکھا کہ ژالہ باری سے پورا علاقہ برباد ہو گیاہے لیکن حیرت انگیز طور پر عین اس آفت زدہ علاقے کے اندر کچھ کھیت بالکل سلامت ہیں اور انہیں معمولی سا بھی گزند نہیں پہنچا۔
ظاہر ہے یہ منظر بڑا ہی پراسرار اورحیران کن تھا۔ پتہ چلا کہ یہ کھیت ایک مسلمان زمیندار کے ہیں۔ دورے سے فارغ ہو کر چودھری صاحب خود اس زمیندار کے پاس تشریف لے گئے اور معلوم کیا کہ اس کا کیا خاص عمل ہے کہ مکمل تباہ شدہ علاقے کے اندر اس کے کھیتوں کومعمولی سا نقصان نہیں پہنچا۔
اس زمیندار نے بتایا کہ جب میری کوئی بھی فصل تیار ہوتی ہے تو میں اپنے گاﺅں کےغر باءومساکین کوبلالیتا ہوں اور باقاعدہ وزن کرکے اناج اور بھوسے کا دسواں حصہ ان کے حوالے کردیتاہوں اوراپنا حصہ بعد میں گھر لے جاتا ہوں۔ ”لیکن میں اسی پراکتفانہیں کرتا“۔ اس زمیندار نے بتایا ”یہ توشرعی طور پر میرافرض ہے، میں اس حوالے سے کسی پراحسان نہیں کرتا۔ یہ نہیں کروں گا توگناہگار بنوں گا۔ اس کے بعد خاص عمل میں یہ کرتا ہوں کہ اپنے ذرائع سے میں جائزہ لیتا رہتا ہوں کہ گاﺅں میں کسی غریب کے گھر سے، کسی بیوہ عورت کے گھر سے گندم یا غلہ ختم تو نہیں ہوگیا۔ وہ ضرورت مند تو نہیں ہے اور جس کے بارے میں مجھے ایسی خبر مل جائے بغیر اس کی طلب کے، ازخود اس کے گھر میں غلہ پہنچا دیتا ہوں......یہ ہے میرا خاص عمل۔جس کی وجہ سے میرے کھیت اللہ کی ناراضگی سے مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔“
میں نے یہ واقعہ ایک محفل میں سنایا تو وزیرآباد کے معروف تاجر شیخ محمدانور صاحب نے بتایا کہ اسی قسم کاایک واقع ہمارے قریبی قصبے سوہدرہ میں بھی رونما ہوچکا ہے۔ وہاں ایک مرتبہ کیڑے نے چاول کی ساری فصل تباہ کردی تھی مگر میاں عبدالخالق کے پچاس ایکڑ پر مشتمل سارے کھیت مکمل محفوظ رہے تھے اورانہیں معمولی سا نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اور اس کا سبب بھی یہ تھا کہ میاں صاحب بہت عبادت گزار اور خداترس انسان تھے۔ غرباءومساکین کا خاص خیال رکھتے اور انہیں بھوکا ننگا نہیں دیکھ سکتے تھے۔سوہدرہ میں میرے عزیز رہتے ہیں۔ مجھے وہاں ایک شادی میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ پنڈال میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے یہ بات چھیڑ دی اور حاضرین سے اس کی تصدیق چاہی تو سب لوگوں نے اس واقعے کی صداقت کی گواہی دی۔ انہوں نے بتایا کہ میاں عبدالخالق تو انتقال کرچکے ہیں مگران کے بھائی میاں عبدالرشید اسی محفل میں موجود ہیں.......میاں عبدالرشید صاحب سے ملاقات ہوئی توانہوں نے ایک اور عجیب واقعہ سنایا۔ بتایا کہ مئی کا مہینہ تھا۔ تھریشر لگا ہوا تھا اورگندم نکل رہی تھی کہ اچانک شمال کی جانب سے گہرے کالے بادل امنڈکرآئے اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب بارش لازماً ہوگی (سوہدرہ وزیرآباد کے قریب دریائے چناب کے قریب مشہور تاریخی قصبہ ہے۔کسی زمانے میں اس پورے علاقے میں بارشیں کثرت سے ہوا کرتی تھیں)۔
میاں عبدالخالق تھریشر کے قریب ہی موجود تھے۔ انہوں نے گہرے کالے بادلوں کا یہ منظر دیکھا توفوراً وضو کیا اور بے اختیار سجدے میں گر گئے اور اس وقت سراٹھایا جب بادل ہوا کے ساتھ تحلیل ہوکر غائب ہوگئے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں